حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، نائب امام جمعہ سکردو بلتستان علامہ شیخ جواد حافظی نے ایامِ فاطمیہ کی مناسبت سے امام زمانہ عجّل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی خدمت میں اور تمام اہلِ ایمان کی خدمت میں تعزیت و تسلیت پیش کرتے ہوئے کہا کہ الحمدللہ ہمارے علاقوں میں بھی ایامِ فاطمیہ ایک تسلسل کے ساتھ منائے جا رہے ہیں۔ اگرچہ ۱۳ جمادی الاول کی ایک اہم روایت گزر چکی ہے، تاہم تاریخ و روایات کے مطابق زیادہ تاکید جو شہادتِ جناب سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا پر ہے، وہ ۳ جمادی الثانی کی تاریخ کے حوالے سے ہے۔ روایات میں ایام کے تعین کے بارے میں مختلف اقوال ہیں: بعض میں 75 دن، بعض میں 95 دن اور بعض روایات میں 65 دن بھی ذکر ہوئے ہیں۔ یہ شمار 28 صفر کی وفاتِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سے لے کر شہادتِ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا تک ہے، لیکن زیادہ تر معتبر روایات کے مطابق، 3 جمادی الثانی کو شہادت کی تاریخ قرار دیا گیا ہے، لہٰذا میری مؤمنین سے گزارش ہے کہ مجالسِ فاطمیہ جمادی الثانی کے اول تین دنوں میں امام بارگاہوں، مساجد اور گھروں میں شہادتِ سیدۂ کائنات سلام اللہ علیہا کے ذکر کا خصوصی اہتمام کیا جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جنابِ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت کوئی معمولی واقعہ نہیں۔ یہ ولایت کے نظام کو بچانے کے لیے دی جانے والی سب سے پہلی قربانی تھی۔ سیدۂ کائنات نے اپنے گھر پر حملہ برداشت کیا، دروازے کی آگ برداشت کی، پسلیوں کے زخم برداشت کیے، بچے کی شہادت برداشت کی، لیکن ولایت کے اصول کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا؛ یہ قربانی نسلِ آدم کی تمام عورتوں کی سردار نے پیش کی ہے، لہٰذا ان کے ایام کا احیاء ہماری ذمہ داری اور سیدہ کا ہم پر حق ہے۔
شیخ جواد حافظی نے کہا کہ روایات میں آیا ہے کہ اپنی زندگی کے آخری لمحات میں سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا نے اللہ کی بارگاہ میں عرض کیا: پروردگار، میں تجھ سے سوال کرتی ہوں، تمام انبیاء کی عصمتوں کو گواہ بنا کر اپنے دو معصوم بچوں کی گریہ کرتی ہوئی حالت کو وسیلہ بنا کر اور اپنے یتیم بچوں کے رونے کو وسیلہ بنا کر، میرے شیعوں، میرے چاہنے والوں، عزاداروں اور میری ذریت کے ماننے والوں کے گناہوں کو معاف فرما۔
نائب امامِ جمعہ سکردو علامہ شیخ محمد جواد حافظی نے ملکی اور علاقائی حالات پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد میں حالیہ دہشت گردی کا واقعہ بہت بڑا سانحہ ہے۔ سوچنے کا مقام ہے کہ اسلام آباد جیسا دارالحکومت اگر محفوظ نہیں تو پھر اس ملک کا کون سا چپہ اور کون سا حصہ محفوظ کہلایا جا سکتا ہے؟
انہوں نے مزید کہا کہ وزیرِ اعظم اور صدر نے واقعے کے بعد بیان دیا کہ ہم آخری دہشت گرد کے خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسلام آباد کے اندر ہی دہشت گردوں کا ایک بڑا سرغنہ موجود ہے۔
شیخ جواد حافظی نے مزید کہا کہ پاکستان کے امن و امان کا مسئلہ، اسلام آباد میں موجود کالعدم تنظیموں کے سرغنوں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے پر منحصر ہے۔









آپ کا تبصرہ